حضرت با یزید بسطامی رحمۃاللہ علیہ
- Admin
- Sep 30, 2021
ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے لئے تذکرةُالا ُولیاء بہت مفید اور معلوماتی کتاب ہے۔ اس میں چھیانوے اولیاء کرام کے زندگی کے حالات اور ان کے مکاشفات کے بارے میں نہایت دلچسپ واقعات بیان کئے گئے ہیں۔
تذکرہ الاولیا حضرت فرید الدین عطار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تصنیف کردہ ہے جو خود بھی ولی اللہ کا مرتبہ رکھتے ہیں۔
اس کو شائع ہوئے تقریباً سو سال ہو گئے ہیں۔ حضرت عطاررحمۃاللہ علیہ 513 ہجری کو نیشاپور کے مضافات میں پیدا ہوئے اور وہیں 627 ہجری کو ایک تاتاری سپاہی کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش فرمایا۔
اس کتاب میں حضرت بایزید بسطامی رحمۃاللہ علیہ کا تذکرہ بھی ہے۔ یہ اپنے وقت کے بہت بڑے ولی اللہ مانے جاتے تھے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃاللہ علیہ جو'' شيخ ابو يزيد البسطامی '' اور''طیفورابویزیدبسطامی ''کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔آپؒ کا اصل نام'' ابو يزيد طيفور بن عيسى بن شروسان البِسطامِی'' ہے۔آپ ؒ کی کنیت ابو یزید ہے۔ آپ ؒ فارس(ایران) کے صوبے بسطام میں پیداہوئے۔ بسطامی آپؒ کے نام کے ساتھ اسی نسبت سے لگایاجاتاہے۔ آپ ؒکے آباؤ اجدادمجوسی تھے جو بعد میں اسلام کی طرف راغب ہو گئے۔بسطام ایک بڑا قریہ ہے جو نیشاپور کے راستے میں واقع ہے۔ آپؒ کے داداکے تین بیٹے تھے،آدم،طیفور(بایزیدکے والد)اورعلی۔ یہ سارے بڑے ہی زاہد اور عبادت گزار تھے ۔
آپؒ کے بارے میں حضرت جنید بغدادی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ حضرت بایزیدؒ کو اولیا میں وہی مرتبہ حاصل ہے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ملائکہ میں حاصل ہے۔ تذکرہ الاولیا میں حضرت بایزید بسطامی رحمۃاللہ علیہ کے بارے میں بہت سی معلومات ہیں مگر ایک بہت اہم واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
حضرت شیخ بایزید بسطامی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ میں ایک سفر میں خلوت سے لذت حاصل کر رہا تھا اور فکر میں مستغرق تھا اور ذکر سے اُنس حاصل کر رہا تھا کہ مجھے ایک آوازسنائی دی۔
اے بایزید !''دیر سمعان'' کی طرف چل ،اور عیسائیوں کے ساتھ ان کی عید اور قربانی میں حاضر ہو۔ اس میں ایک شاندار واقعہ ہوگا۔ میں نے اعوذ باللہ پڑھا اور کہا کہ پھر اس وسوسہ دوبارہ نہیں آنے دوں گا۔ جب رات ہوئی تو خواب میں ہاتف کی وہی آواز سنی۔ جب بیدار ہوا تو بدن میں لرزہ تھا۔ پھر سوچنے لگا کہ اس بارے میں فرمانبرداری کروں یا نہ ،تو پھر میرے باطن سے آوازآئی کہ ڈرو مت، تم ہمارے نزدیک اولیاء اخیار میں سے ہو اور ابرار کے دفتر میں لکھے ہوئے ہو۔ راہبوں کا لباس پہن لو اور ہماری رضا کیلئے زنار باندھ لو۔ آپ پر کوئی گناہ یا انکار نہ ہوگا۔
حضرت ؒفرماتے ہیں کہ صبح سویرے میں نے عیسائیوں کا لباس پہنا، زنار کو باندھا اور ''دیر سمعان ''پہنچ گیا۔ وہ ان کی عید کا دن تھا۔ مختلف علاقوں کے راہب ''دیر سمعان ''کے بڑے راہب سے فیض حاصل کرنے اور ارشادات سننے کیلئے حاضر ہو رہے تھے۔ میں بھی راہب کے لباس میں ان کی مجلس میں جا بیٹھا۔ جب بڑا راہب آ کر منبر پر بیٹھا تو سب خاموش ہو گئے۔ بڑے راہب نے جب بولنے کا ارادہ کیا تو اس کاا منبر لرزنے لگا اور کچھ بول نہ سکا گویا اس کا منہ کسی نے لگام سے بند کر رکھا ہے تو سب راہب اور علما ءکہنے لگے اے مرشدِ ربانی! کون سی چیز آپ کو گفتگو سے مانع ہے؟ ہم آپ کے ارشادات سے ہدایت پاتے ہیں اور آپ کے علم کی قدر کرتے ہیں۔ بڑے راہب نے کہا کہ میرے بولنے میں یہ امر مانع ہے کہ تم میں ایک محمدی شخص آ بیٹھا ہے۔ وہ تمہارے دین میں آزمائش کیلئے آیا ہے لیکن یہ اس کی زیادتی ہے۔ سب نے کہا ہمیں وہ شخص دکھا دو ہم فوراً اس کو قتل کر ڈالیں گے۔ اس نے کہا بغیر دلیل اور حجت کے اس کو قتل نہ کرو، میں امتحاناً اُس سے ''علم الادیان'' کے چند مسائل پوچھتا ہوں۔ اگر اس نے سب کے صحیح جواب دئیے تو ہم اس کو چھوڑ دیں گے ورنہ قتل کر دیں گے کیونکہ امتحان میں مرد کی عزت ہوتی ہے یا رسوائی و ذلت۔ سب نے کہا آپ جس طرح چاہیں کریں۔ وہ بڑا راہب منبر پر کھڑا ہو کر پکارنے لگا ای محمدی! تجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھڑا ہو جا! تاکہ سب لوگ تجھے دیکھ سکیں تو بایزید علیہ الرحمہ کھڑے ہو گئے۔ اس وقت آپ ؒکی زبان پر رب تعالیٰ کی تقدیس اور تمجید کے کلمات جاری تھے۔ اس بڑے پادری نے کہا اے محمدی !میں تجھ سے چند مسائل پوچھتا ہوں۔ اگر تو نے پوری وضاحت سے ان سب سوالوں کا جواب دیا تو ہم تیری اتباع کریں گے ورنہ تجھے قتل کر دیں گے۔ حضرت بایزید ؒنے فرمایا کہ تو معقول یا منقول جو چیز پوچھنا چاہتا ہے پوچھ، اللہ تمہارے اور ہمارے درمیان گواہ ہے۔
وہ قوم بتاؤ جو جھوٹی ہو اور بہشت میں جائے گی، وہ قوم بتاؤ جو سچی ہو اور دوزخ میں جائے گی؟
بتاؤ کہ تمہارے جسم سے کون سی جگہ تمہارے نام کی قرار گا ہ ہے؟
و الذاریات ذروا کیا ہے؟ الحاملات وقرا کیا ہے؟ الجاریات یسرا کیا ہے؟ المقسمات امرا کیا ہے؟
وہ کیا ہے جو بے جان ہو اور سانس لے؟
ہم تجھ سے وہ چودہ پوچھتے ہیں جنہوں نے رب العالمین کے ساتھ گفتگو کی؟
وہ قبر پوچھتے ہیں جو مقبور کو لے کر چلی؟
وہ پانی جو نہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ زمین سے نکلا ہو؟
وہ چار جو نہ باپ کی پشت اور نہ شکم مادر سے پیدا ہوئے؟
پہلا خون جو زمین پر بہایا گیا؟
وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو اور پھر اس کو خرید لیا ہو؟
وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا پھر ناپسند فرمایا ہو؟
وہ چیز جس کے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو پھر اس کی عظمت بیان کی ہو؟
وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو پھر خود پوچھا ہو کہ یہ کیا ہے؟
وہ کون سی عورتیں ہیں جو دنیا بھر کی عورتوں سے افضل ہیں؟
کون سے دریا دنیا بھر کے دریاؤں سے افضل ہیں؟
کون سے پہاڑ دنیا بھر کے پہاڑوں سے افضل ہیں؟
کون سے جانور سب جانوروں سے افضل ہیں؟
کون سے مہینے افضل ہیں، کون سے راتیں افضل ہیں؟
طآئمہ کیا ہے؟
وہ درخت بتاؤ جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتے ہیں اور ہر پتے پر پانچ پھول ہیں، دو پھول دھوپ میں تین سایہ میں؟
وہ چیز بتاؤ جس نے بیت اللہ کا حج اور طواف کیا ہو نہ اس میں جان ہو اور نہ اس پر حج فرض ہو؟
کتنے نبی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے اور ان میں سے رسول کتنے ہیں اور غیر رسول کتنے؟
وہ چار چیزیں بتاؤ جن کا مزہ اور رنگ اپنا اپنا ہو اور سب کی جڑ ایک ہو؟
تقیر کیا ہے، قطمیر کیا ہے، فتیل کیا ہے، سبد و لبد کیا ہے، طعم ورم کیا ہے؟
ہمیں یہ بتاؤ کہ کتا بھونکتے وقت کیا کہتا ہے؟
گدھا ہینگتے وقت کیا کہتا ہے؟
بیل کیا کہتا ہے، گھوڑا کیا کہتا ہے، اونٹ کیا کہتا ہے، مور کیا کہتا ہے، بیل کیا کہتا ہے، مینڈک کیا کہتا ہے؟
جب ناقوس بجتا ہے تو کیا کہتا ہے؟
وہ قوم بتاؤ جن پر اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی ہو وہ نا انسان ہو نہ جن اور فرشتے؟
یہ بتاؤ کہ جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے، جب رات ہوتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہے؟
حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ کوئی اور سوال ہو تو بتاؤ۔ وہ پادری بولا کہ اور کوئی سوال نہیں۔ آپؒ نے فرمایا اگر میں ان سوالوں کا شافی جواب دے دوں تو تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایمان لاؤ گے؟ سب نے کہا ہاں، پھر آپ ؒنے کہا اے اللہ تو ان کی اس بات پر گواہ ہے۔
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا
پھر فرمایا کہ، تمہارا سوال کہ ایک بتاؤ جس کا دوسرا نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ واحد قہار ہے۔
وہ دو جن کا تیسرا نہ ہو وہ رات اور دن ہیں۔ لقولہ تعالی (سورب بنی اسرائیل، آیت:٢١)
وہ تین جن کا چوتھا نہ ہو وہ عرش، کرسی اور قلم ہیں۔
وہ چار جن کا پانچواں نہ ہو وہ چار بڑی آسمانی کتابیں تورات، انجیل، زبور اور قرآن مقدس ہیں۔
وہ پانچ جن کا چھٹا نہ ہو وہ پانچ فرض نمازیں ہیں۔
وہ چھ جن کا ساتواں نہ ہو وہ چھ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا لقولہ تعالیٰ (سورہ قاف، آیت:٨٣)
وہ سات جن کا آٹھواں نہ ہو وہ سات آسمان ہیں ۔لقولہ تعالیٰ (سورہ ملک: آیت:٣)
وہ آٹھ جن کا نواں نہ ہو وہ عرش بریں کو اٹھانے والے آٹھ فرشتے ہیں ۔لقولہ تعالیٰ (سورہ حآقہ، آیت:٧١)
وہ نو جن کا دسواں نہ ہو وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی شخص تھے ۔لقولہ تعالیٰ (سورہ نمل، آیت:٧٤)
وہ دس جن کا گیارہواں نہ ہو وہ متمتع پر دس روزے فرض ہیں جب اس کو قربانی کی طاقت نہ ہو ۔
لقولہ تعالیٰ (سورہ بقرہ، آیت:٦٩١)
وہ گیارہ جن کا بارہواں نہ ہو وہ یوسف علیہ السلام کے بھائی ہیں۔ گیارہ ہیں ان کا بارہواں بھائی نہیں ۔
لقولی تعالیٰ (سورہ توبہ، آیت:٦٣)
وہ تیرہ جن کا چودھواں نہ ہو وہ یوسف علیہ السلام کا خواب ہے ۔لقولہ تعالیٰ (سورہ یوسف، آیت:٤
وہ جھوٹی قوم جو بہشت میں جائے گی وہ یوسف علیہ السلام کے بھائی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا معاف فرما دی۔
لقولہ تعالٰی (سورہ یوسف، آیت:٧١)
وہ سچی قوم جو دوزخ میں جائے گی وہ یہود و نصارٰی کی قوم ہے ۔لقولہ تعالیٰ (سورہ بترہ، آیت ٣١١)
تو ان میں سے ہر ایک، دوسرے کے دین کو لاشی بتانے میں سچا ہے لیکن دونوں دوزخ میں جائیں گے۔
تم نے جو سوال کیا ہے تیرا نام تیرے جسم میں کہاں رہتا ہے تو جواب یہ ہے کہ میرے کان میرے نام کی رہنے کی جگہ ہیں۔
(والذاریات ذروا) چار ہوائیں ہیں مشرقی، غربی، جنوبی اور شمالی (فالحاملات وقرا) بادل ہیں لقولہ تعالٰی (سورہ بترہ، آیت:٤٦١)
(فالجاریات یسرا) سمندر میں چلنے والی کشتیاں ہیں، (فالمقسمات امرا) وہ فرشتے ہیں جو پندرہ شعبان سے دوسرے پندرہ شعبان تک لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں۔
وہ چودہ جنہوں نے رب تعالٰی کے ساتھ گفتگو کی وہ سات آسمان اور سات زمینیں ہیں۔
لقولہ تعالیٰ (سورہ حم السجدہ، آیت:١١)
وہ قبر جو مقبور کو لے کر چلی ہو، وہ یونس علیہ السلام کو نگلنے والی مچھلی ہے۔
بغیر روح کے سانس لینے والی چیز صبح ہے۔
وہ پانی جو نہ آسمان سے اترا ہو اور نہ زمین سے نکلا ہو وہ پانی ہے جو گھوڑوں کا پسینہ بلقیس نے آزمائش کیلئے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا۔
وہ چار جو کسی باپ کی پشت سے ہیں اور نہ شکم مادر سے وہ اسماعیل علیہ السلام کی بجائے ذبح ہونے والا دنبہ، صالح علیہ السلام کی اونٹنی، آدم علیہ السلام اور حضرت حوا ہیں۔
پہلا خون ناحق جو زمین پر بہایا گیا وہ آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل کا خون تھا جسے بھائی قابیل نے قتل کیا تھا۔
وہ چیز جو اللہ تعالٰی نے پیدا فرمائی پھر اسے خرید لیا وہ مومن کی جان ہے۔ لقولی تعالٰی (سورہ توبہ، آیت:١١١)
وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی پھر اسے نا پسند فرمایا وہ گدھے کی آواز ہے ۔لقولہ تعالٰی (سورہ لقمان، آیت:٩١)
وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو پھر اسے برا کہا ہو وہ عورتوں کا مکر ہے۔ لقولہ تعالٰی (سورہ یوسف، آیت:٨٢)
وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو پھر پوچھا ہو کہ یہ کیا ہے وہ موسٰی علیہ السلام کا عصا ہے ۔
لقولہ تعالٰی (سورہ طہٰ، آیت:٧١)
یہ سوال کہ کون سی عورتیں دنیا بھر کو عورتوں سے افضل ہیں وہ ام البشر حضرت حوا، حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت آسیہ، حضرت مریم ہیں (رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین)۔
باقی رہا افضل دریا وہ سحیون، جیجون، دجلہ، فرات اور نیل مصر ہیں۔
سب پہاڑوں سے افضل کوہِ طور ہے۔
سب جانوروں سے افضل گھوڑا ہے۔
سب مہینوں سے افضل میینہ رمضان ہے ۔لقولہ تعالٰی (سورہ بقرہ، آیت:٥٧١)
سب راتوں سے افضل رات لیلہ القدر ہے ۔لقولہ تعالٰی (سورہ قدر، آیت:٣)
تم نے پوچھا کہ طآئمہ کیا ہے وہ قیامت کا دن ہے۔
ایسا درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی کے تیس پتے ہیں اور ہر پتہ پر پانچ پھول ہیں جن میں سے دو پھول دھوپ میں ہیں اور تین سایہ میں تو وہ درخت سال ہے۔ بارہ ٹہنیاں اس کے بارہ ماہ ہیں اور تیس پتے اس ہر ماہ کے دن ہیں اور ہر پتے پر پانچ پھول ہر روز کی پانچ نمازیں ہیں۔ دو نمازیں ظہر اور عصر کی آفتاب می روشنی میں پڑھی جاتی ہیں اور باقی تین نمازیں اندھیرے میں۔
وہ چیز جو بے جان ہوں اور حج اس پر فرض نہ ہو لیکن اس نے حج اور بیت اللہ طواف کیا ہو وہ نوح علیہ السلام کی کشتی ہے۔ تم نے نبیوں کی تعداد پوچھی ہے پھر رسولوں اور غیر رسولوں کی تو کل نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں ان میں سے تین سو تیرہ رسول ہیں اور باقی غیر رسول۔
تم نے وہ چار چیزیں پوچھی ہیں جن کا رنگ اور ذائقہ مختلف حالانکہ جڑ ایک ہے وہ آنکھیں ناک، منہ اور کان ہیں کہ مغز سر اُن سب کی جڑ ہے۔
آنکھوں کا پانی نمکین ہے اور منہ کا پانی میٹھا ہے اور ناک کا پانی ترش ہے اور کانوں کا پانی کڑوا ہے۔
تم نے نقیر، قطمیر، فتیل، سبد و لبد اور طعم ورم کے معانی دریافت کیے ہیں کھجور کی گٹھلی کی پشت پر جو نقطہ ہوتا ہے اس کو نقیر کہتے ہیں گٹھلی پر جو باریک چھلکا ہوتا ہے اس کو قطمیر کہتے ہیں گٹھلی کے اندر جو سفیدی ہوتی ہے اسے فتیل کہتے ہیں۔ سبد و لبد بھیڑ بکری کے بالوں کے کہا جاتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی آفرینش سے پہلے کی مخلوقات کو طعم ورم کہا جاتا ہے۔
گدھا ہینگتے وقت شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے (لعن اللہ العشار)
کتا بھونکتے وقت کہتا ہے (ویل لاھل النار من غضب الجبار)
بیل کہتا ہے (سبحان اللہ وبحمدہ)، گھوڑا کہتا ہے (سبحان حافظی اذاالتقت الابطال واشتعلت الرجال بالرجال)
اونٹ کہتا ہے (حسبی اللہ وکفی باللہ وکیلا)
مور کہتا ہے (الرحمن علی العرش استوی)، بلبل کہتا ہے (سبحان اللہ حین تمسون وحین تسبون)
مینڈک اپنی تسبیح میں کہتا ہے (سبحان المعبود فی البراری والقفار وسبحان الملک الجبار)
ناقوس جب بجتا ہے تو کہتا ہے (سبحان اللہ حقا حقا انظرنا یا ابن آدم فی ھذہ الدنیا غربا و شرقاما تری فیھا احدیقی)
تم نے وہ قوم پوچھی ہے جن پر وحی آئی حالانکہ وہ نہ انسان تھے نہ جن اور نہ فرشتے وہ شہد کی مکھیاں ہیں ۔
لقولہ تعالٰی (سورہ نحل، آیت ٨٦)
تم نے پوچھا کہ جب رات ہوتی ہے تو دن کہاں جاتا ہے اور جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جب دن ہوتا ہے تو رات اللہ تعالٰی کے غامض علم میں چلی جاتی ہے اور جب رات ہوتی ہے تو دن اللہ تعالیٰ کے غامض علم میں چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وہ غامض علم کہ جہاں کسی مقرب نبی فرشتہ کی رسائی نہیں۔
پھر آپ (حضرت بایزید بسطامہ علیہ الرحمہ) نے فرمایا کہ تمہارا کوئی ایسا سوال رہ گیا ہے جس کا جواب نہ دیا گیا ہو؟ انہوں نے کہا نہیں، سب سوالوں کے صحیح جواب دیے ہیں۔ آپؒ نے بڑے پادری سے فرمایا کہ تم سے صرف ایک بات پوچھتا ہوں اس کا جواب دو۔ وہ یہ کہ آسمانوں کی کنجی اور بہشت کی کنجی کون سی چیز ہے؟
وہ پادری سربگیرباں ہو کر خاموش ہو گیا۔ سب پادری اس سے کہنے لگے اس شیخ نے تمہارے اس قدر سوالوں کے جواب دیے لیکن آپ اس کے ایک سوال کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔ وہ بولا جواب مجھے آتا ہے اگر میں وہ جواب بتاؤں تو تم لوگ میرے موافقت نہ کرو گے۔ سب نے بیت زبان ہو کر کہا کہ آپ ہمارے پیشوا ہیں۔ ہم ہر حالت میں آپ کی موافقت کریں گے۔ تو بڑے پادری نے کہا آسمانوں کی کنجی اور بہشت کی کنجی (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) ہے۔ تو سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے اور اپنے اپنے زنار وہیں توڑ ڈالے۔
غیب سے ندا آئی، اے بایزید! ہم نے تجھے ایک زنار پہننے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ ان کے پانچ سو زنار توڑ ڈالو۔
ہر کہ خواہد ہمنشینی باخُدا
اُو نشیند در حضور اولیا
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سخت ترین سردی کی راتوں میں ایک رات میری والدہ ماجدہ نے پانی طلب فرمایا، جب پانی لایا تو والدہ ماجدہ سو چکی تھیں، میں نے ادباً جگانا پسند نہ کیا اور بیداری کے انتظار میں کھڑا رہا! جب بیدار ہوئیں تو انہوں نے پانی مانگا، میں نے پیالہ پیش کر دیا، میرے انگلی پر ایک قطرہ پانی گرا اور سردی کی شدت سے وہ جم گیا، میں نے اتارنا چاہا تو ماس اکھڑ پڑا اور خون جاری ہو گیا۔ والدہ ماجدہ نے دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے تمام ماجرا بیان کر دیا، آپ دعا فرمانے لگیں، الٰہی! میں اس پر راضی ہوں تو بھی راضی رہ! آپؒ جب اپنی والدہ کے بطن میں تھے تو انہوں نے کبھی مشتبہ کھانا نہ کھایا۔
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ میں بیس برس کا تھا کہ والدہ ماجدہ نے مجھے بلایا اور اپنے ساتھ سلایا، میں نے بطور تکیہ والدہ کے سر کے نیچے اپنا ہاتھ رکھ دیا تو وہ سن ہو گیا۔ میں نے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہاتھ کا نکالنا مناسب نہ سمجھا تا کہ والدہ کی نیند اور آرام میں خلل واقع نہ ہو، اس دوران میں سورۃ اخلاص کا وظیفہ کرتا رہا، یہاں تک کہ دس ہزار مرتبہ میں نے قل ھو اللہ احد پڑھا! اور والدہ کے حق کی محالفت کے لئے اپنے ہاتھ سے بے نیاز ہو گیا۔ یعنی پھر میں اس ہاتھ سے مفلوج ہونے کے باعث کام نہ لے سکا۔
آپ ؒکے وصال کے بعد کسی دوست نے خواب میں دیکھا آپ ؒجنت میں بڑے مزے سے ٹہل رہے ہیں اور اللہ تعالٰی کی تسبیح میں محوِ پرواز ہیں، پوچھا گیا آپ کو یہ مقام کیسے نصیب ہوا؟
فرمایا والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ، خدمت گزاری اور ان کی سخت باتوں پر صبر و استقامت کی وجہ سے! کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے والدین اور رب العالمین کا فرمانبردار ہو گا اس کا مقام اعلٰی علیین میں ہے۔
(عیون المجالس) (نزہتہ المجالس ص ٦٣١)
حضرت بایزید بسطامی ؒ کے ایک خادم سے روایت ہے کہ ہم نے ایک بار مدینہ منور ہ میں دیکھا کہ ایک بزرگ کے گرد بہت سے لوگ جمع ہیں لیکن وہ بزرگ خاموش ہیں۔ اس بزرگ نے جب لوگوں کی آرزو اور توقعات کا احساس کیا تو رونے لگے۔ لوگوں نے بزرگ سے اپنے اپنے بارے میں خدا سے دعا کیلئے درخواست کی۔ بزرگ کو اور مجھے دیکھ کر حضرت بایزید بسطامی ؒبھی وہاں رک گئے۔ پھر وہ بزرگ فرمانے لگے کہ’’ اللہ کی یہ مخلوق اور بندے اگر اپنے پروردگار کو جان لیتے تو ہرگز ایسا نہ کرتے۔ اگر اللہ کے بندے اللہ کی معرفت حاصل کر لیتے تو وہ خوداس قدر غنی ہو جاتے کہ انہیں کسی سہارے کی ضرورت اور محتاجی ہی نہ رہتی۔ اِس مخلوق خدا کو میرے پاس بھی آ کر کھڑے ہونے کی ضرورت پیش نہ آتی۔‘‘ اِس کے بعد اُس بزرگ نے اپنے پروردگار سے یوں دعا کی کہ ’’اے میرے پروردگار !تو مجھے اِن لوگوں میں اُلجھا کر نہ رکھ دینا۔ کہیں یہی لوگ میرا حجاب نہ بن جائیں اور میں قربِ الٰہی سے محروم ہو جائوں۔ اے پروردگار ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں تاکہ میں حجابات میں نہ آوں اور اے پروردگار ! مجھے اِن لوگوں کے لئے حجاب بنا دے تاکہ میں تیری معرفت سے بیگانہ نہ ہوسکوں۔‘‘
ایک بار حضرت با یزید بسطامی ؒ دوران مناسک حج حجرا سود کے پاس تشریف لائے اور اُسے سلام پیش کیا۔ پھر مقام ابراہیم علیہ اسلام پر چلے گئے۔ مقام ابراہیم علیہ السلام پر کھڑے ہو کر حضرت با یزید بسطامی ؒ نے یوں دعا فرمائی’’ اے میری جان اور روح کے مالک ! تو ہی میرا پروردگار ہے، تیرے کتنے ہی بندے ایسے ہیں کہ جو حجابات میں گرفتار ہیں، لیکن اے مالک ! تو اپنے خاص بندوں کے حجابات دور فرما دیتا ہے۔ یا اللہ پاک! تو اپنے بندوں کے حجابات دور فرما۔ اِس دعا پر حضرت بایزید بسطامی ؒنے آوازسنی، جس میں کہا گیا تھا کہ اے ابو یزید! تیرے پروردگار کا کوئی حجاب اور کوئی پردہ نہیں ہے۔ اللہ اپنے بندوں اور اپنے درمیان کوئی حجاب حائل نہیں رکھتا،بندے اور خدا کے مابین تو کوئی دوری ہے ہی نہیں۔ ‘‘ہاتف کی یہ ندا سن کر حضرت بایزید بسطامیؒ زارو قطار رونے لگے۔
ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام کہیں تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں آپؑ نے ایک چرواہے کو دیکھا جو محبت الٰہی میں مگن خدا تعالیٰ سے یوں خطاب کر رہا تھا کہ’’ اے میرے محبوب خدا میرے پاس آ کر بیٹھ، مجھ سے باتیں کر، میں تیرے پائوں دھو دھو کر پیوں گا اور قدم چوموں گا۔ تجھے نہلائوں گا، اچھے اچھے کپڑے پہنائوں گا، نرم و گداز بستر تیرے لئے بچھائوں گا، اچھے اچھے کھانے کھلائوں گا اور تو سو جائے گا تو تیرے پائوں دبائوں گا۔‘‘ عشق و محبت کی مستی میں وہ اسی قسم کی باتیں کر رہا تھا۔ حضرت موسیٰؑ نے اُس کی باتیں سن کر پوچھا کہ تم کس سے یہ باتیں کر رہے ہوں؟وہ محبوب کون ہے جس کی اِس قدر زیادہ خدمت کرنے کا تم اظہار کر رہے ہو؟ چرواہا بولا کہ میرا محبوب میرا خدا ہے ، میں اپنے خدا سے خطاب کر رہا ہوں، یہ ساری خدمتیں میں اُسی کی کروں گا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام سن کر فرمانے لگے ۔’’ ارے نادان ! توبہ کر، یہ تمہاری باتیں خدا تعالیٰ کے متعلق تو سراسر کفر ہیں بے خبر ! خدا تعالیٰ تو اِن سب باتوں سے پاک اور منزہ ہے، یہ تم کیا کہہ رہے ہو ،توبہ کرو اور ایسی باتوں سے خدا کی پناہ مانگو۔‘‘چرواہے نے یہ ڈانٹ ڈپٹ سنی تو ڈر گیا اور سوچنے لگا کہ ہائے میں نے یہ کیا کیا؟ میں نے تو یہ سب باتیں محبت سے کی تھیں۔ مجھے کیا خبر تھی کہ ایسی باتیں خدا کی شان میں ہرگز لائق نہیں،یہ سوچ کر کچھ ایسا ڈرا کہ وہاں سے اٹُھ کر وحشت کے عالم میں دوڑا اور جنگل میں چلا گیا اور اِسی ڈر سے رونے لگا۔ اُدھر چرواہاجنگل کی طرف بھاگا اور اِدھر جبریل امین علیہ السلام وحی لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا’’ حضور ! خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ آپؑ نے کیا کیا؟ میرا وہ طالب صادق چرواہا میری محبت میں یہ سب باتیں کر رہا تھا۔ میں اُس کی باتیں سن رہا تھا اور میں جانتا تھا کہ اُسے مجھ سے محبت ہے لیکن اِن باتوں سے میرا منزہ ہونا اُس کے علم میں نہ تھا، یہ باتیں اُس کی زبان پر تھیں لیکن اُس کی نیت اچھی تھی۔ دل اس کا میری محبت سے معمور تھا۔ اے موسیٰ ! تم نے اُس کے لفظوں کو دیکھا لیکن اُس کی نیت کا کچھ خیال نہ کیا۔ میں لفظوں کو نہیں، دل کو دیکھتا ہوں۔ اے موسیٰ ! میں نے تجھے اِس لئے معبوث فرمایا ہے کہ تم میرے بندوں کو میرے ساتھ ملائو، لیکن تم تو میرے بندوں کو مجھ سے بھگانے لگے ہو۔ جائو اُسے جنگل سے واپس لا کر اُسے ہماری خوشنودی کا پیغام سنائو۔‘‘
آنحضرت محمد مصطفی ﷺ کی زیارت کا طریقہ بزرگوں نے لکھا ہے کہ اگر کسی کو نبی کریم ؐ کی زیارت کا شوق ہو، وہ جمعہ کی رات دو رکعت نفل نماز اِس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد11 مرتبہ آیۃ الکرسی اور 11 مرتبہ سورئہ اخلاص پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد 100 مرتبہ یہ دُرود شریف پڑھے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ اِلنَّبِیِّ الاُمِّیِّ وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔
اگر کوئی شخص چند مرتبہ یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اسے حضور ِاقدسؐ کی زیارت نصیب فرمادیتے ہیں، بشرط یہ کہ شوق اور طلب کامل ہو، گناہوں سے بھی بچتا ہو۔
(اصلاحی خطبات، جلد 2، صفحہ 104)
شامی میں لکھا ہے کہ جن سے قبر میں سوال نہیں کیا جائے گا ،وہ آٹھ قسم کے لوگ ہیں:
شہید،اسلامی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والا۔
مرضِ طاعون سے فوت ہونے والا،طاعون کے زمانہ میں طاعون کے علاوہ کسی مرض سے فوت ہونے والا، جبکہ وہ اس پر صابر اور ثواب کی اُمید رکھنے والا ہو۔
صدیق۔
بچّے۔
جمعہ کے دن یا رات میں فوت ہونے والااور ہر رات سورئہ تبارک (سورئہ مُلک) پڑھنے والا۔بعض حضرات نے اس سورۃکے ساتھ سورئہ سجدہ کو بھی ملایا ہے۔
اپنے مرضِ موت میں قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدْ پڑھنے والا۔
شارحؒ نے اشارہ فرمایا ہے کہ ان میں انبیائے کرام کا اضافہ کیا جائے گا، اس لیے کہ وہ صدیقین سے درجے میں بڑھے ہوئے ہیں۔ (شامی، جلد 1، صفحہ 872
ایک مرتبہ ایک شخص حضرت بایزیدبسطامی ؒسے ملاقات کے شوق میں اپنے وطن سے نکلا ، سفر کرتا ہواایک راستہ میں ایک جگہ درخت کے سایہ میں آرام کرنے لیٹا تودیکھا کہ دو چڑیاں آپس میں بات کررہی ہیں ، اوریہ شخص چڑیوں کی بولی جانتا تھا ۔
ان میں سے ایک چڑیا دوسری چڑیا سے کہہ رہی تھی کہ معلوم ہے یہ آدمی جو درخت کہ نیچے ہے ، کہاں جارہا ہے ؟ دوسری چڑیا نے کہا : ہاں یہ بایزید بسطامی کے پاس جارہا ہے ، تواس چڑیا نے کہا : ان کا تو انتقال ہو گیا ، یہ شخص یہ بات سن کر پریشان ہوا ، اور واپسی کا ارادہ کرلیا ، پھر سوچا کہ جب نکلا ہی ہوں تو جاکر زیارت کر لوں ، پھر آگے سفر جاری رکھا ، اور بایزید بسطامی کے پاس پہنچا ، تو دیکھا کہ وہ تو باحیات ہیں ، ملاقات کی ، گفت وشنید کے بعد رخصتی کے وقت کہنے لگاکہ حضرت! ایک بات پوچھنا ہے ، پھر چڑیا والاسارا قصہ سنایا ، بایزیدبسطامی ؒچونکے اور دریافت کیا کہ یہ کس دن اورکس وقت کا واقعہ ہے ؟ اس نے بتایا کہ فلاں دن اور فلاں وقت کا واقعہ ہے ، حضرت با یزید ؒکہنے لگے کہ ہاں بھائی! چڑیاسچ کہہ رہی تھی ، اس وقت کچھ دیر کے لئے میرا دل اللہ سے غافل ہو گیا تھا ، اللہ سے دل کاغافل ہونا ، دل کا مردہ ہونا ہے ۔
اللہ اکبر! ہمارا حال کیا ہے ، ان کا دل تو کچھ دیر کے لئے مردہ ہوا تھا ، ہمارا دل ہمیشہ مردہ رہتا ہے ، ہم اللہ کاذکر ہی نہیں کرتے ، عجیب اور حیرت انگیز واقعہ ہے ، اس واقعہ سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے اور ہمیشہ اللہ کاذکر کرنا اوراس کا دھیان رکھنا چاہئے ، تاکہ دل مردہ نہ ہو ۔
حضرت بایزید ؒ فرماتے ہیں کہ ایک شب فلک اول کے ملائکہ جمع ہو کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم آپؒ کے ہمراہ عبادت کرنا چاہتے ہیں، میں نے اُن سے کہا کہ میری زبان میں طاقت نہیں جس سے میں ذکرِ الہی کر سکوں ۔ لیکن اس کے باوجود رفتہ رفتہ ساتوں آسمان کے ملائکہ میرے پاس جمع ہوگئے۔اور سب سے وہی خواہش ظاہر کی جو فلک اول کے فرشتوں نے کی تھی۔اور میں نے سب کو پہلے ہی جیسا جواب دیا۔ اور جب پوچھا کہ ذکرِ الہی کی طاقت آپ میں کب
تک پیدا ہو گی تو میں نے کہا کہ قیامت میں جب سزا و جزا ختم ہو جائیں گے اور طواف عرش کرتا ہوا اللہ اللہ کہہ رہا ہوں گا۔
حضرت بایزید ؒ نے فرمایا کہ کچھ عرصہ سے نماز میں مجھے خیال آتا ہے کہ میرا قلب مشرک ہے اور اس کو زنار کی ضرورت ہے۔
فرمایا کہ خدا شناسی کے بعد میں نے خدا کو اپنے لئے کافی سمجھ لیا۔
حضرت بایزید ؒ نے فرمایا کہ مجھے یہ مرتبہ پہلے حاصل ہوا کہ جس عضو کو رجوع الا اللہ پایا تو اس سے کنارہ کش ہر کر دوسرے عضو سے کام نکالا۔
حضرت بایزید ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے خدا سے سوائے خدا کہ کچھ طلب نہیں کیا اور فرمایا کہ مخلوق نے مجموعی طور پر جتنا خدا کو یاد کیا ہے میں نے تنہا یاد کیا ہے۔ جس کی وجہ سے خدا نے مجھکو یاد فرمایا اور اپنی معرفت سے مجھکو حیات نو عطا کردی۔
حضرت بایزید ؒ نے فرمایا کہ مغرور اِس کو کہتے ہیں جو دوسروں کو کم تر تصورکرے اور مغرور کو کبھی معرفت حاصل نہیں ہوتی۔
ایک مرتبہ حضرت بایزید ؒ کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک ارادت مند آپؒ کے تقشِ پا پر قدم رکھ کر چلتے ہوئے کہنے لگا مرشد کے نقشِ قدم پر چلنا اسکو کہتے ہیں۔ پھر اِسی مرید نے استدعا کی کہ مجھے اپنی پوستین کا ایک ٹکڑا عنایت فرما دیں۔ تاکہ مجھے بھی برکت حاصل ہو سکے۔ آپؒ نے فرمایا اس وقت تک میری کھال بھی سودمند نہیں جب تک مجھ جیسا عمل نہ ہو۔
ایک شب حضرت بایزیدؒ کو عبادت میں لذت محسوس نہ ہوئی تو خادم سے فرمایا دیکھو گھر میں کیا چیز موجود ہے۔ چنانچہ انگور کا ایک خوشہ نکلا تو آپؒ نے فرمایا یہ کسی کو دے دو۔ اس کے بعد آپؒ کے اوپر انوار کی بارش ہونے لگی اور ذکر و شغل میں لذت محسوس ہونے لگی۔
منقول ہے کہ حضرت بایزیدؒ ریاضت میں اس درجہ مستغرق رہتے تھے کہ ایک ارادت مند جو تیس سال سے آپؒ کا خادم بنا ہوا تھا وہ جب بھی سامنے آتا تو آپؒ پوچھتے کہ تیرا نام کیا ہے ؟
ایک مرتبہ اُس نے عرض کی کہ آپؒ میرے ساتھ مذاق کرتے ہیں ؟ کہ جب بھی میں سامنے آتا ہوں تو آپؒ نام پوچھتے ہیں۔
آپؒ نے فرمایا میں مذاق نہیں کرتا بلکہ میرے قلب و روح میں اس طرح اللہ تعالی کا نام جاری و ساری ہے کہ اس کے نام کے سوا مجھے کسی کا نام یاد نہیں رہتا۔
حضرت بایزید بسطامیؒ نے فرمایا اگر میں اعلیٰ مجاہدات کا ذکر کروں تو تمہارے فہم سے بالاتر ہے لیکن میرا معمولی مجاہدہ یہ ہے کہ ایک دن میں نے اپنے نفس کو عبادت کے لئے آمادہ کرنا چاہا تو وہ منحرف ہوگیا لیکن میں نے بھی اُسے سزا کےطور پر پورے ایک سال تک پانی سے محروم رکھا اور کہا تم عبادت کے لئے تیار ہوجاو ورنہ اسی طرح پیاس سے تڑپاتا رہوں گا۔
حضرت بایزید بسطامیؒ سے روایت ہے آپؒ نے فرمایا کہ درویش کا بغیر مراقبہ کے چلنا نشانِ غفلت ہے ۔یعنی چلتے وقت بھی قدموں کے ساتھ اللہ ھو کہے، ایک قدم اُٹھائے تو (اللہ) اور دوسرے کو اُٹھائے تو ھو کہے۔آپؒ فرماتے ہیں جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ دو قدموں میں ہی حاصل ہوتا ہے، کیونکہ ایک قدم اپنے حصہ کی تلاش کے لئے رکھا جاتا ہے اور دوسرا اللہ تعالی کے حکم کے مطابق رکھا جاتا ہے۔
حضرت بایزید ؒ فرماتے ہیں کہ ساری عمر میری یہی تمنا رہی کہ ایک نماز تو ایسی ادا کروں کہ جو خداوند تعالی کے شایانِ شان ہو۔لیکن افسوس میں ایسا نہ کر سکا۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص حضرت بایزید ؒ کی ذیارت کو آیا اور جب واپس جانے لگا تو کہنے لگا کہ میں نے آپؒ کی کوئی کرامت نہیں دیکھی۔حضرت بایزید ؒ نے فرمایا کہ تم نے اپنے قیام کے دوران میرا کوئی عمل خلافِ سنت دیکھا ؟ تو اُس شخص نے نفی میں جواب دیا ۔
پھر آپؒ نے فرمایا اس سے بڑھ کر اور کیا کرامت چاہتے ہو ؟
حضرت بایزید بسطامی ؒ فرماتے ہیں محبت یہ ہے کہ بندہ اپنی بہت ذیادہ عبادت کو بلکل معمولی سمجھے اور دوست کی تھوڑی سی عطا کو بہت ذیادہ جانے۔
حضرت بایزید ؒ نے خود فرمایا ہے کہ محبت میں سالک کو چاہئے کہ وہ اپنے (عمل و نفاق) کے بہت کچھ کو کم سمجھے اور محبوب کی جانب سے تھوڑی سی عطا کو ذیادہ تصور کرے۔
ایک شخص بایزید ؒ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے بایزید مجھکو اللہ تعالی نے ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے جس تک دنیا کے کسی آدمی کی رسائی نہیں آپؒ نے پوچھا آخر وہ کیا اور کیسا مقام ہے۔ تو اُس شخص نے کہا عرش سے فرش تک جو کچھ بھی ہئ سب میرے لئے مسخر ہے ۔ اس پر بایزید ؒ نے فرمایا یہ تو سب سے کم تر درجہ ہے۔ جس سے اہلَ معرفت سرفراز ہوتے ہیں۔
عارف کامل وہی ہے جو آتشِ محبت میں جلتا رہے۔
اگر اللہ تعالی مجھے جہنم میں جھونک دے اور میں صبر کر لوں تب بھی اس کی محبت کا حق ادا نہیں ہوتا اور اللہ تعالی مجھکو پوری کائینات بخش دے تب بھی اُس کی رحمت کے مقابلے میں قلیل ہے۔
عارف کا ادنیٰ مقام یہ ہے کہ صفات خداوندی کا مظہر ہو۔
اللہ نے مجھے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کل کائینات کو اپنی اُنگلیوں کے درمیان دیکھتا ہوں
ایک ر ات صبح تک اپنے قلب کی جستجو کرتا رہا لیکن نہیں ملا اورصبح کو یہ ندائے غیبی آئی کہ تجھے دل سے کیا غرض تو ہمارے سوا کسی کو تلاش نہ کر۔
مجھے خدائی بارگاہ سے حیرت و ہیبت کے علاوہ کچھ نہ مل سکا۔
تیس سال تک اللہ تعالی میرا آئینہ بنا رہا لیکن اب میں خود آئینہ بن گیا ہوں اس لئے کہ میں نے اُس کی یاد میں خود کو بھی اس طرح فراموش کردیا ہے کہ اب اللہ تعالی میری زبان بن چکا ہے یعنی میری زبان سے نکلنے والے کلمات گویا زبانِ خداوندی سے عطا ہوتے ہیں اور میرا وجود درمیان سے ختم ہوجاتا ہے۔
چالیس سال میں نے مخلوق کو نصیحت کرنے میں گزارے لیکن سب بے سود ثابت ہوا اور جب رضائے خداوندی ہوئی تو میری نصیحت کے بغیر ہی لوگ سیدھے رستے پر آگئے۔
محبت کے بغیر معرفت بے معنی ہے۔
تذکرۃالاولیاء